Sin in the Garden of Eden by "https://shimua.livejournal.com/4972.html"

 

باغ عدن میں گناہ
کیاواقعی خُدا سب کچھ جانتا ہے؟

یہ سوال سنتے ہیں "جی ہاں" کی آواز نکالناآسان ہے۔لیکن کبھی کبھی ضمنی سوالات کو  صرف ایک " جی ہاں " میں نمٹانا مشکل ہوجاتا ہے۔اگر واقعی خُدا سب جانتا ہے اور وہ عالم الغیب ہے۔ تو کیوں خُدا نے یہ علم رکھنے کے باوجود آدم کو گناہ کرنے سے نہیں بچایا۔؟خُدا ضرور جانتا ہوگا کہ آدم اور حوا کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔اول تو یہ کہ خُدانے کیوں ان کو ایسا حکم دیا جو وہ خود جانتا تھا کہ اس کی عدولی کریں گے۔کیا خُدا ان کو آزما نا چاہتا تھا۔کیا خُدا ان پر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ کمزور ہیں؟یعقوب 1:13میں لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔نہ تو خُدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔

تو کیا اس حکم سے کہ تو نیک اور بد کی پہچان کا پھل نہ کھانا(پیدائش 2:15،17)آدم اور حوا ایک بڑی آزمائش میں نہ ڈالا تھا؟

پہلا کرنتھیوں 10:13میں مرقوم ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔خُدا سچا ہے۔وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دیگا۔بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کردیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔"

لیکن ہم جانتے ہیں کہ اُس وقت  آدم اور حوا کے لئے آزمائش سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا نہیں کی گئی۔بلکہ ان کو باغ عدن سے باہر نکلنا پڑا۔

اس سے پہلے کہ قارئین ان بے سرو پا سوالات کے سبب راقم کو گستاخ قرار دیں۔ آئیے اب ان کے جوابات سے  جان بخشی کروالیتا ہوں۔

 

خُدا  سب کچھ جانتا ہے۔

مندرجہ ذیل دیئے ہوئے ان آیات کو ملاحظہ کریں جس میں خُدا کے کامل علم رکھنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

"۔۔۔۔۔خُدا علم میں کامل ہے " (ایوب37:16)

"۔۔۔خُدا کے علم کی کوئی انتہا نہیں "(زبور147:5)

"۔۔۔خُدا سب کچھ جانتا ہے " (1یوحنا 3:20)

"۔۔۔خُدا نے تمہارے سر کے بال بھی گنے ہوئے ہیں (متی 10:30)

"خُدا وہ باتیں اس سے پیشتر کے واقع ہوں بیان کرتا ہے "(یسعیاہ42:9)

"خُدا ابتدا سے انجام کی خبر دیتا ہے" (یسعیاہ 46:10) اور خُدا نے اپنے بیٹے یسوع کی پیدائش،زندگی ،موت اور جی اٹھنے کے بارے میں پہلے سے بتایا۔ اس سے بلکل ثابت ہے کہ خُدا کامل علم رکھنے والا اور اس سے پہلے کہ کوئی امر عملاَ واقع ہو۔خُدا پیشتر سے ان کے متعلق جانتا ہے۔

خُدا کی خواہش
خُدا باپ قادر مطلق اور کامل علم رکھنے کے باوجود بھی ایسی خواہشیں رکھتا ہے جن کو ہم انسان ان کے مرضی پر چل کر پوری کر سکتے ہیں۔ان خواہشات کی بجاوری کے لئے وہ اپنی قوت کا استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی ہمیں رضامند اور مطمئن کئے بغیر اپنی مرضی ہم پر مسلط کرتا ہے۔لہذا کامل علم رکھنے اور رب الافواج قادر مطلق ہونے کے باوجود خُدا بھی چند چیزیں چاہتا ہے مثلاَ
1
تیمتھئس 2:4 میں لکھا ہے "وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں"
2
پطرس 3:9"خُدا اپنے وعدوں میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں۔بلکہ وہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے"
متی 6:10 :جیسے تیری مرضی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو "

 

خُدا نے کیوں آدم اور حوا کو یہ حکم دیا تھا۔

خُدا نے انسان کو اپنی شہبیہ اور صورت پر بنایا تھا۔یقینا اس میں جسمانی صورت سے زیادہ سیرت اور صفات کی بات تھی۔اس کے لئے آدم اور حوا کی کردار سازی ضروری تھی۔اس حکم کے ذریعے خُدا کا ان کی کردار سازی مقصود تھا۔کیونکہ آدم اور حوا کے ذمہ "پھلو  بڑھو اور زمیں کو معمور اور محکوم کرو۔۔۔۔۔۔زمین اختیار رکھو"کا کام تھا (پیدائش 1:28)اور اتنی بڑی ذمہ داری کے صاحب کردار اور فرمان برداری ضروری تھا۔لیکن خُدا نے آدم اور حوا کے گناہ میں گرنے کے بعد زمین کے لئے اپنا منصوبہ ترک نہیں کیا۔ بلکہ انسان کے گناہ کے ازالہ کا انتطام کیا۔اور یسوع مسیح کے قربانی کے وسیلے انسان کو گناہ پر غالب آنے کا موقع فراہم کیا۔ "لیکن جو غالب آئے میں اُسے اُس زندگی کے درخت میں سے جو خُدا کے فردوس میں ہے پھل جانے کو دوں گا (مکاشفہ 2:7)یہ وہی پھل ہے جس کے گرد شعلہ زن کروبیوں کو تعینات کیا گیا تھا (پیدائش 3:24) اور خُدا نے وعدہ کیا کہ وہ زمین کو اپنے جلال سے معمور کرے گا (گنتی 14:21)

 

خُدا نے کیوں آدم اور حوا کو نہیں روکا۔

خُدا نے انسان کو پیدا کرکے ایک آزاد مرضی عطا کیا۔ اور خُدا نےانسان کو اپنی طرف سے دی ہوئی آزاد مرضی اور خود مختاری میں کبھی جبری طور پر مداخلت نہیں کی۔بلکہ ہمیشہ پہلے سے اس کو تنبیہ کرتا رہا۔باغ عدن میں بھی خُدا نے آدم کو گناہ میں گرنے سے پہلے تنبیہ کیا کہ وہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل نہ کھائے۔لیکن اس تنبیہ کے ساتھ اس کے ان کی خودمختاری چھین کر اپنی مرضی ان پر مسلط نہیں کیا۔

 


کیا خُدا نہیں جانتا تھا کہ آدم اور حوا گناہ کریں گے؟

خُدا جانتا تھا کہ آدم اور حوا گناہ کریں گے۔ یہ فقط خُدا کا علم تھا۔ لیکن ہرگز یہ خُدا کی خواہش نہیں تھی کہ وہ ارتکاب گناہ کریں۔

اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں علم اور خواہش کے فرق کو جاننا ہوگا۔مثلا ایک ڈاکٹر اپنی علم اور فہم کی بنیاد پر یہ جان سکتا ہے کہ اس مریض کے گردے ناکارہ ہیں۔ پھیپڑوں کو دپ دق چاٹ چکا ہے۔ذیابیطس اس کے تمام قوت مدافعت کو ختم کر چکا ہے۔اور یہ مریض چند دنوں میں ہی مرجائے گا۔ لیکن یہ تمام معلومات ہیں۔یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ایک ڈاکٹر کی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ یہ شخص مرجائے۔بلکہ ڈاکٹر کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان تمام نقائص کے باوجود یہ شخص تندرست ہوجائے۔

بلکل اسی طرح خُدا کو معلوم تھا کہ آدم اور حوا  اس کی حکم عدولی کریں گے۔اور اس حکم عدولی کے سبب ان کی روحانی موت واقع ہوجائیگی لیکن یہ خُدا کی ہرگز خواہش نہیں تھی کہ وہ گناہ کریں۔اس لئے خُدا نے ان کو بروقت تنبیہ اور خبردار کیا۔لیکن خُدا نے حتمی فیصلہ ان کے مرضی پر چھوڑ دیا۔


کیونکہ خُدا نے ان کو خودمختار مرضی یعنی اپنے فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیا تھا۔اور اس کے ساتھ ہی خُدا نے ان کو سمجھایا بھی تھا کہ اس حکم عدولی کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہیں نکلے گا۔"حزقی ایل  18:32"  میں خُداوند خُدا فرماتا ہے کہ مجھے مرنے والے کی موت سے شادمانی نہیں۔اس لئے بازآؤ اور زندہ رہو"


خلاصہ

باغ عدن میں خُدا نے آدم اور حوا کے اہم ذمہ داری کے پیش نظر ان کے کردار سازی کے لئے ان کو ایک حکم دیا کہ وہ نیک اور بد کی پہچان کے درخت کا پھل نہ کھائیں۔ خُدا پہلے سے جانتا تھا کہ وہ حکم عدولی کرکے ارتکاب گناہ کریں گے۔لیکن یہ خُدا کا علم کامل تھا۔یہ خُدا کی خواہش نہیں تھی۔

جیسے کوئی طبیب اپنے علم کی بنیا پر جان سکتا ہے کہ اس کا مریض مرے گا۔لیکن یہ اس کی خواہش نہیں ہوگی۔

خُدا نے پیشگی جانتے ہوئے کہ آدم اور حوا گناہ کا مرتکب ہوں گے۔اس نے ان کو تنبیہ اور خبردار کیا لیکن اس کے خودمختاری میں مداخلت نہیں کی۔

اور نہ آج خُدا کسی پر زبردستی اپنی مرضی مسلط کرتا ہے۔خُدا ہمیں بائبل مقدس،انبیاء کی تعلیمات،خُداوند یسوع مسیح کی انجیل،شاگردوں کی منادی اور ہزراہا خادمین کلام کے وسیلے روزانہ یاددلاتا ہے کہ ہم اپنی سمجھ اور رضامندی سے اس کی فرماں برداری کریں اور سچائی اور صداقت کی زندگی گزاریں کیونکہ  صادق زمین کے وارث ہوں گے اور ہمیشہ اس میں بسے رہیں گے (زبور37:29)اور جس طرح سمندرسے پانی سے بھرا ہے اسی زمین خُداوند کے عرفان سے معمور ہوگی (یسعیاہ11:9) اور ایک دفعہ پھر صادق انسان کی زمین کو وراثت میں پانے کے بعد اور خُدا کے جلال کے عرفان سے معموری سے ایسا لگے گا کہ سب کچھ اچھا ہے۔ اور یہ وہی اچھا ہے جو شروع میں خُدا نے تخلیق کے کائنات کے وقت بولا تھا۔

گو یہ سب ابھی مستقبل میں ہوگا لیکن دراصل انسان اپنی مقام رفتہ اور تعلق گزشتہ کو خُدا کے ساتھ بحال کرے گا۔




0 Comments